Alfia alima

Add To collaction

دنیا کا اولین بت ساز

دنیا کا اولین بت ساز
زرقا کی خاموش زندگی، جس کی ابتدا خود اسے بھی نہ معلوم تھی، اور جو جابلقا کے سنگستان میں اس طرح گزر رہی تھی،جیسے صرف ایک سایۂ متحرک یا غیرمحسوس آوازِ بازگشت، اب اپنے اندر کوئی انقلاب پیدا کرنا چاہتی تھی، خواہ وہ انقلاب سمندر کی اسی پرشور موج سے کیوں نہ حاصل ہو، جو روز اس کے ساحل اور اس کے غار کے سپید سپید پتھر وں سے مل کر کسب عریانی کیا کرتی تھی۔ 

زرقا، طلوع و غروب کے ارغوانی مناظر میں اب ایک خونیں کیفیت محسوس کرتا تھا، اور چاند اسے ایسا نظر آتا تھا، جیسے کوئی عریان لاش۔ جنگل کی چڑیاں جو اس کے چاروں طرف جھاڑیوں اور درختوں میں چہچہایا کرتی تھیں، اس کے دماغ کے لئے کوئی نغمہ فراہم نہ کرسکتی تھیں۔ کیونکہ اب وہ شیریں سے شیریں آواز میں اپنے لیے ایک طعن محسوس کرتا تھا، اور الجھنے لگتا تھا۔ سمندر کی خوش گوار و لطیف ہوا جو ہر وقت موجوں کی چادر کو تہہ کرکے کھول کھول دینےکا دلچسپ منظر پیش کیا کرتی تھی زرقا کے لیے گویا چیں پیشانی تھی۔ الغرض اب وہ اس زمین و آسمان، اس آب و ہوا، صبح و شام، رات دن، یہاں تک کہ خود اپنی سانس کی یکساں آمد و شد سے بیزار ہوگیا تھا۔ اور غار کے دروازہ پر ہر وقت ملول و غمگین بیٹھا رہتا تھا۔ 

وہ کیا چاہتا تھا، اسے کس چیز نے رنج پہنچارکھا تھا، اسے کس کی تلاش تھی، یہ خود اس کو بھی معلوم نہ تھا۔ 

زرقا، ایک صبح حسب معمول عالم محویت و استغراق میں (گویا کہ وہ اِک بت ہو) سنگ مرمر کی چٹان پر بیٹھا ہوا ایک دوسرے پتھر سے صدماتِ ضرب پہنچا رہا تھا کہ دفعتاً وہ چونک پڑا، اس نے دیکھا کہ مرمر میں اس کے اس طرز عمل سے ایک انسانی چہرہ بن گیا ہے، جو بے انتہا حسین و دلکش ہے، اس چہرے میں ایک خاص بات تھی ایک ایسی بات جو اس نے اپنے چہرے میں نہیں پائی۔ ایک عجیب دل کشی تھی وہ دل کشی جس سے خود اس کا چہرہ بالکل محروم تھا۔ وہ اپنے کام میں مصروف رہااور شب و روز کی محنت سے چند دن میں ایک عورت کاایسا حسین مجسمہ تیار ہوگیا کہ جب کبھی تکل جانے کے بعد اس کو نیند آجاتی تو وہ اسے خواب میں چلتا پھرتا، ہنستا بولتا، اور اپنی ساری روح کو اس کے نورانی چہرہ کے عکس سے منور و درخشاں پاتا تھا، وہ چونک پڑتا اور اسی عالمِ استغراق میں اپنے ہاتھ سے اس کو چھوتا اپنے لبوں سے مس کرتا، لیکن وہ یہ دیکھ کر کس قدر مضمحل ہوجاتا کہ اس کا بدن ٹھنڈا ہے۔ اور اس کے ہاتھ پاؤں بدستور سنگین۔ 

وہ کس قدر بیتاب تھا کہ اس مجسمہ سے کچھ بات کرے، اور وہ جواب دے، اس کو اپنی آغوش میں لے، اور اس کا بدن لچک جائے، اس سے کچھ کہے، اور وہ ہنسنے لگے، بسا اوقات وہ اس خیال سے اس حدتک متاثر ہوجاتا تھا، کہ واقعی اسے زندہ سمجھنے لگتا تھا، اور اس کے پاس جاکر پوچھنے لگتا تھا کہ: 

’’تیرے لب کیوں نہیں کھلتے، کیا مجھ سے برہم ہے؟‘‘ 

مہینوں گزر گئے اور زرقا سے اس سنگین عورت نے ایک بات بھی نہیں کی۔ اب اس کا یہ شوق جنون کی حدتک پہنچ گیا تھا۔ اور اپنی اس التجا کو آسمان و زمین کی ہر مرئی چیز کے سامنے پیش کرکے رویا کرتا تھا۔ 

ایک رات جب چاند اپنے پورے عروج اور شبابِ یاسمیں رنگ کو لیے ہوئے نکلا تو زرقا اس سے شکایت کرنے لگا کہ: 

’’اے آسمان کی حسین ملکہ تو ہی انصاف کر کہ یہ مجھ سے کیوں بات نہیں کرتی۔ یہ ساحل کی ایک چٹان میں پڑی سو رہی تھی کہ میں نے اس کو جگادیا، میں نے اس کا سنگین نقاب دور کیا۔ اگر اس میں کوئی برہم ہوجانے کی وجہ ہے تو یہ سارا کوہستان تجھ سے کیوں خفا نہیں ہوجاتا، کہ تو اس کی سیاہ چادر چھین کر اس کو عریاں کردیتی ہے، یہ سارا سمندر تجھ سے کیوں نہیں روٹھ جاتا کہ تو اس کی نقاب شب لے کر برہنہ کردیتی ہے، میں دیکھتا ہوں کہ تجھے دیکھ کر جنگل کے درخت، سمندر کی موجیں، سب ہی جنبش میں آجاتے ہیں۔ پھر اے دیوی کیا یہ تیری حیات فرمائیاں میرے درد کی دوا نہیں ہوسکتیں، کیا تیری چاندنی میں میں یونہی ہمیشہ تڑپا کروں، اگر یہی مرضی ہے تو مجھے بھی سمندر کی ایک مچھلی بنادے، کیا تیری روشنی میں یونہی ہمیشہ رویا کروں، اگر تیری یہی خواہش ہے تو مجھے بھی کسی چھوٹی سی موج میں تبدیل کردے۔‘‘ 

زرقا، یونہی دیر تک کہتا اور روتا رہا، یہاں تک کہ اس کی آنکھ لگ گئی، صبح کو جاگا تو اس کی حیرت کی کوئی انتہا نہ تھی، جب اس نے دیکھا کہ مجسمہ کا کچھ رنگ بدل گیا ہے، اور اس کا جگم اس قدر سخت نہیں رہا کہ اسے سنگین کہہ سکیں، جب وہ دباتا تھا تو لچک جاتا تھا، اور اس قدر نرم محسوس کرتا تھا جیسے کیلے کا درخت۔ 

شام کو جب آفتاب نے دنیا سے رخصت ہونے کے لیے اپنے ارغوانی سایہ کے دامن کو تمام کوہ و دشت میں پھیلا دیا، تو زرقا نے اس سے مخاطب ہوکر کہا: 

’’اے آسمان و زمین کے بادشاہ، اب میں اپنی التجائیں تیرے پاس لے کر آیا ہوں، رات کی ملکہ نے میرے ساتھ جو سلوک کیا ہے، وہ تجھ سے چھپا ہوا نہیں اور شاید اس سے زیادہ اس کے بس کی بات نہ تھی، لیکن اگر تو چاہے، تو سب کچھ کرسکتا ہے۔ تیرے دامن سے میں صرف تھوڑا سا رنگ چاہتا ہوں اور ذرا سی گرمی، اور اگر تو عنایت کرے تو کچھ وہ چیز بھی جس سے تو جنگلوں میں پھلوں کو پختہ کرتا ہے اور سنہرا۔‘‘ 

زرقا، یہ کہتا ہی رہا اور آفتاب غائب ہوگیا، لیکن وہ دیوانہ وار اچھل پڑا، جب اس نے مجسمہ کے رخسار اور سارے جسم میں اپنے بدن کی طرح خون سا دوڑتے ہوئے محسوس کیا، اور اس کے سینہ میں نارنگی کا گداز۔ 

مجسمہ میں ہر تغیر کے ساتھ زرقا کی بیتابیاں بڑھتی جارہی تھیں،اور اب وہ اپنی التجائیں ہر ہر ذرہ کے سامنے پیش کر رہا تھا، نسیم صبح سے اس نے درخواست کی، تاروں کے سامنے وہ گڑگڑایا، رات سے اس نے خطاب کیا، دن کے سامنے اس نے ہاتھ جوڑے، الغرض جب ایک صبح وہ اپنی التجاؤں کے ساتھ قریب قریب اپنی ساری، روح صرف کرچکا، تو بیہوش ہوگیا، لیکن جب اس کو ہوش آیا تو اس حال میں کہ وہ مجسمہ اپنی جگہ پر نہ تھا، بلکہ سرہانے ایک نہایت حسین عورت بیٹھی ہوئی اس کے منتشر بالوں سے کھیل رہی تھی۔ 

زرقا کو اس عورت کے ساتھ زندگی بسر کرتے ایک زمانہ گزر گیا۔ یہاں تک کہ اس کی ساری مسرتیں اس کے لیے عادت ہوگئیں، اور اس کاولولہ و شوق روز کا معمول۔ 

یا تو اول اول محبت و پرستاری کا یہ عالم تھا کہ کسی وقت اسکو نگاہوں کے سامنے سے ہٹنے ہی نہیں دیتا تھا، کوئی لمحہ ایسا نہ ہوتا تھا، جس کو وہ اپنی محبت کے اظہار سے غیر منقوش گزرجانے دیتا ہو، یا رفتہ رفتہ یہ حالت ہوگئی کہ وہ گھنٹوں خاموش رہتا تھا،دن دن بھر اسے پرواہ نہ ہوتی تھی کہ وہ کس حال میں ہے اور کیا کر رہی ہے۔ آہستہ آہستہ یہ بے پروائی نفرت سے تبدیل ہونے لگی، اور اب زرقا اس سے برہم ہونے کے لئے اسباب تلاش کرنے لگا، اگر جگل سے پھل لانے میں اسے کچھ دیر ہوجاتی تھی تو زرقا اس سے خفا ہوجاتا تھا، اور اگر اس سے خدمت میں ذرا سا بھی تامل ہوتا تو زرقا بہت سختی سے پیش آتا تھا۔ یقیناً زرقا کو اس کے ساتھ محبت تھی لیکن اس کی معیت میں چوں کہ اب کوئی نئی بات نہ تھی وہ اس کی ساری لذتوں سے آگاہ ہوگیا تھا، اس لیے زرقا (جیسا کہ مرد کی عادت ہے) اس کی طرف سے بیزار ہوگیا۔ ادھر زرقا کے ہر طرز عمل کے ساتھ اس میں ایک غیر محسوس تغیر ہوتا جاتا تھا اور اس کی ساری تازگی و شگفتگی مضمحل ہوتی جاتی تھی، یہاں تک کہ ایک دن زرقا نے انتہائی غیظ و غضب کی حالت میں اس کو مارا تو دفعتاً اس کی نگاہوں سے اِک پردہ سااٹھ گیا، کیوں کہ اس کا ہاتھ کسی ایسی چیز پر لگا، جیسے پتھر کی ہو، اور اس کے سخت چوٹ آئی۔ وہ عورت اَب پھر مجسمہ ہوگئی تھی، اور اس کی سنگینی کا وہی عالم تھا جو ابتدائے زمانہ میں پایا جاتا تھا، لوگ کہتے ہیں کہ زرقا وہیں سرپٹک پٹک کر مرگیا، لیکن مجسمہ میں کوئی حرکت پیدا نہیں ہوئی۔ 

’’اگر عورت کو خود مرد سنگدل بنادے تو پھر اس کی تلافی مرد کے جان دینے سے بھی نہیں ہوسکتی۔‘‘ یہ ہے وہ تحریر جو اب تک اس مجسمہ کے نیچے کندہ پائی جاتی ہے۔ 

   1
0 Comments